سندھ نے اسکول سے باہر بچوں تک رسائی کے لیے غیر رسمی تعلیمی اقدام کا آغاز کیا۔
- April 18, 2024
- 815
سندھ کے وزیر تعلیم اور معدنیات سید سردار علی شاہ نے کہا ہے کہ غیر رسمی تعلیمی حکمت عملی کے تحت اسکول سے باہر بچوں کو مختصر مدت میں تعلیم مکمل کرنے کا موقع فراہم کیا جائے گا.
اس سلسلے میں سندھ میں ایک نان فارمل ایجوکیشن اتھارٹی قائم کی جائے گی جو یونیسیف کے تعاون سے اور پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے چلائی جائے گی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کو کراچی میں منعقدہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا جس میں سیکرٹری تعلیم زاہد علی عباسی اور دیگر حکام نے شرکت کی۔
صوبائی وزیر نے بتایا کہ غیر رسمی تعلیمی حکمت عملی کے تحت سکول چھوڑنے والا بچہ چار سال کے اندر آٹھویں جماعت تک تعلیم مکمل کر سکے گا اور اس حکمت عملی کی مدد سے سندھ میں 20 لاکھ اضافی بچے آنے والے چار سالوں میں تعلیم حاصل کر سکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ سندھ پاکستان کا واحد صوبہ ہے جس نے نہ صرف غیر رسمی تعلیم کے لیے نصاب تیار کیا ہے بلکہ کورس ورک کا بھی اہتمام کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسکول چھوڑنے والے بچوں کی سہولت کے لیے ان علاقوں میں غیر رسمی تعلیمی مراکز قائم کیے جائیں گے جہاں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد زیادہ ہے۔ سردار شاہ نے کہا کہ پرائمری تعلیم کے بعد ہمارا سب سے بڑا چیلنج ڈراپ آؤٹ ہے، اس کو مدنظر رکھتے ہوئے پرائمری اسکولوں کو اپ گریڈ کیا جائے گا۔
وزیر تعلیم نے کہا کہ سکولوں میں STEM تعلیمی نظام پر بھی زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں بچوں کو سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی جیسے مضامین پڑھانے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں بچوں میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے سائنسی نمائشوں کا انعقاد بھی ضروری ہے۔
انہوں نے ڈائریکٹوریٹ آف پرائیویٹ اسکولز اور ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسرز کو ہدایت کی کہ وہ ضلعی، ڈویژنل اور صوبائی سطح پر سائنسی نمائشیں منعقد کریں تاکہ سندھ میں زیادہ سے زیادہ نوجوان اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی اچھی چیزوں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ کچھ بری چیزوں اور چیلنجوں کی بنیاد پر، ہم اپنے اچھے اقدامات کو روک نہیں سکتے۔ شاہ نے ڈائریکٹوریٹ آف پرائیویٹ انسٹی ٹیوشنز کے عہدیداروں کے ساتھ منعقدہ میٹنگ میں ہدایات دیتے ہوئے کہا کہ نجی اسکولوں کی نگرانی کے طریقہ کار کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں سندھ میں پرائیویٹ اسکولوں کی نگرانی کے لیے 35 انسپکٹرز تعینات کیے جائیں گے، جو سندھ میں ضلعی سطح پر تعینات کیے جائیں گے جب کہ کراچی کے ہر ضلع میں دو انسپکٹرز تعینات کیے جائیں گے۔