برین ڈرین: طلبہ کی ہجرت سے معیشت کو سالانہ 4.2 بلین ڈالر کا نقصان

برین ڈرین: طلبہ کی ہجرت سے معیشت کو سالانہ 4.2 بلین ڈالر کا نقصان
  • July 28, 2025
  • 2295

پاکستان ایک نوجوان آبادی والا ملک ہے، جہاں لاکھوں طلبہ اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لیے دن رات محنت کرتے ہیں، اور والدین اپنی جمع پونجی ان کے بہتر مستقبل پر خرچ کرتے ہیں۔ مگر جب وہی باصلاحیت نوجوان بہتر مواقع کی تلاش میں ملک چھوڑ دیتے ہیں، تو کیا یہ صرف ایک انفرادی کامیابی ہوتی ہے؟ یا اس کے ساتھ ہم اجتماعی طور پر کچھ بہت قیمتی کھو رہے ہوتے ہیں؟

یہ سوال آج نہ صرف پالیسی سازوں بلکہ ہر طالب علم اور ہر والدین کے ذہن میں ہونا چاہیے۔

سہارا ضرور، مگر قیمت کے ساتھ

پاکستان کئی دہائیوں سے ترسیلات زر پر انحصار کرتا رہا ہے، جو بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی وہ رقوم ہیں جنہوں نے ہماری معیشت کو اکثر نازک لمحوں میں سنبھالا دیا۔ 2024-25 میں یہ رقوم 38.5 بلین ڈالر تک پہنچ گئیں — ایک ریکارڈ، جو معیشت کے لیے وقتی سہارا ضرور ہے۔

مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ پیسہ ان ہی ہنر مند افراد کے ذریعے آتا ہے جنہیں ہم نے برسوں پڑھایا، تربیت دی، اور پھر وہ ملک چھوڑ گئے۔ یہ سہارا اُن خوابوں کی قیمت پر حاصل ہوتا ہے جو ہم نے اپنی سرزمین پر دیکھے تھے، مگر اُنہیں باہر جا کر پورا کرنا پڑا۔

برین ڈرین: نوجوانوں کی ہجرت، قوم کا خاموش نقصان

برین ڈرین سے مراد ہنر مند، تعلیم یافتہ افراد کی اپنے ملک سے دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی طرف ہجرت ہے۔ پاکستان میں معاشی غیر یقینی صورتحال، کم اجرتیں، پیشہ ورانہ ترقی کے محدود مواقع، اور سیکیورٹی و گورننس کے مسائل نوجوانوں کو یہ قدم اٹھانے پر مجبور کرتے ہیں۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (PIDE) کے مطابق، پاکستان جنوبی ایشیا میں انسانی سرمائے کی نقل و حرکت کے حوالے سے تیسرے اور دنیا بھر میں چھٹے نمبر پر ہے۔ صرف 2022-23 کے درمیان، تعلیم یافتہ افراد کی ہجرت میں 26.6 فیصد اضافہ ہوا۔

یہ اعداد و شمار صرف نمبرز نہیں — یہ ان خوابوں، صلاحیتوں اور مواقع کی عکاسی کرتے ہیں جو ہم اپنے ملک میں بروئے کار نہیں لا پا رہے۔

طلبہ اور والدین: ایک اجتماعی قیمت

ایک ڈاکٹر کی تربیت پر پاکستان میں اوسطاً $25,000 خرچ آتا ہے۔ اگر ہر سال 10,000 ڈاکٹر بیرونِ ملک چلے جائیں، تو یہ صرف تربیت کے اخراجات میں 250 ملین ڈالر کا نقصان بنتا ہے — اور اس میں تحقیق، ادارہ جاتی ترقی، اور ٹیکس آمدن کا خسارہ شامل نہیں۔

جب والدین اپنے بچوں کی تعلیم پر سرمایہ لگاتے ہیں، تو وہ صرف نوکری کے حصول کے لیے نہیں، بلکہ بہتر زندگی، عزت، اور ملک کے لیے کچھ کرنے کے جذبے سے کرتے ہیں۔ لیکن اگر ہمارے نوجوان واپس ہی نہ آئیں، یا ان کے لیے یہاں مواقع نہ ہوں، تو یہ سرمایہ کاری ملک کے بجائے غیر ملکی معیشتوں کو فائدہ دیتی ہے۔

کیا ترسیلات زر اس نقصان کی تلافی کر سکتی ہیں؟

ترسیلات زر مالی سہارا تو دیتی ہیں، مگر وہ ان خدمات، خیالات اور اختراعات کا نعم البدل نہیں جو ایک ہنر مند نوجوان اپنے وطن میں فراہم کر سکتا ہے۔

فرض کریں 100,000 ہنر مند پیشہ ور سالانہ بیرونِ ملک جا کر $60,000 کماتے ہیں، اور ہر ایک صرف $6,000 وطن بھیجتا ہے، تو:

  • بیرونِ ملک آمدنی: $6 بلین

  • وطن واپس آنے والی رقم: صرف $600 ملین

  • اگر وہ یہیں ہوتے: آمدن $1.2 بلین — سرمایہ، ٹیکس اور معیشت کی ترقی۔

یعنی خالص نقصان: تقریباً $4.2 بلین سالانہ۔ اور یہ صرف معاشی قیمت ہے — تخلیقی، سائنسی اور سماجی نقصان کا تو کوئی حساب ہی نہیں۔

کامیابی کا مطلب صرف بیرونِ ملک جانا کیوں؟

آج کا طالب علم اکثر "کامیابی" کو بیرونِ ملک تعلیم یا ملازمت سے جوڑتا ہے، اور یہی سوچ والدین میں بھی پائی جاتی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں مواقع کم، اور مقابلہ سخت ہے۔

مگر اگر ہم نے ملک میں ہنر کی قدر نہ کی، تو ایک وقت آئے گا جب تعلیم یافتہ نوجوان صرف دوسروں کے خواب پورے کریں گے، اور پاکستان صرف خواب دیکھتا رہ جائے گا۔

طلبہ، والدین اور قوم کے لیے راہِ عمل

اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ہونہار نوجوان یہاں رہیں، ترقی کریں اور ملک کو آگے لے جائیں، تو ہمیں ان کے لیے بہتر ماحول فراہم کرنا ہوگا:

  1. تعلیم میں سرمایہ کاری
    جدید تحقیق، وظائف (اسکالرشپس) اور عالمی معیار کی یونیورسٹیوں کا فروغ۔

  2. اسٹارٹ اپ اور انٹرپرینیورشپ کی حوصلہ افزائی
    نوجوانوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لیے آسان قرضے، تربیت اور سرپرستی فراہم کرنا۔

  3. گورننس اور سیکیورٹی کی بہتری
    تاکہ والدین اپنے بچوں کو ملک میں رکھ کر مطمئن رہیں۔

  4. ریورس برین ڈرین کی پالیسی
    باہر سے واپس آنے والے طلبہ کے لیے مراعات، ٹیکس چھوٹ، اور دوبارہ بسنے کی سہولیات۔

  5. نوجوانوں کی آواز کو اہمیت
    پالیسی سازی میں نوجوانوں کی شمولیت تاکہ فیصلے ان کے مسائل اور خوابوں کے مطابق ہوں۔

پاکستان کا برین ڈرین ایک خاموش بحران ہے — یہ صرف تعلیم یا معیشت کا نہیں بلکہ قوم کے خوابوں، صلاحیتوں اور شناخت کا بحران ہے۔ اگر ہم نے اب بھی اپنی نوجوان نسل کو مواقع فراہم نہ کیے، تو ہم نہ صرف سرمایہ کھوئیں گے بلکہ مستقبل بھی۔

ترسیلات زر وقتی ریلیف دے سکتی ہیں، مگر پائیدار ترقی کے لیے ہمیں اپنی اصل قوت — نوجوانوں — کو ملک میں ہی رکھنا ہوگا، انہیں سننا ہوگا، اور ان کے لیے امکانات پیدا کرنے ہوں گے۔

کیونکہ اگر ہم اپنے طلبہ کو یہاں کامیاب نہیں دیکھ سکتے، تو قوم بھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔

You May Also Like