یہ طریقہ آپ کی تنقیدی سوچ کو بہتر بنانے میں مدد کرے گا
- March 6, 2023
- 407
یونان میں، فلسفے کے بانیوں میں سے ایک عظیم فلسفی استاد "سقراط" پر مقدمہ چل رہا تھا۔ سقراط پر الزام تھا کہ اس نے یونان کے بہت سے نوجوانوں کو گمراہ کیا ہے اور یونانی دیوتاؤں کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے لہٰذہ بہت سے یونانی باشندوں نے سقراط کو "ملک دشمن" بھی قرار دے دیا تھا۔ تاہم، جوابات دینے سے بے خوف سقراط کو بہت زیادہ سوالات پوچھنے سے ڈر لگتا تھا۔
گوکہ سقراط مختصر لیکچرز دینے کو پسند نہیں کرتا تھا لیکن اپنے دوستوں اور اجنبیوں کو اخلاقیات اور معاشرے کے بارے میں لمبی گفتگو میں مصروف کردیتا تھا۔ سقراط بحث نہیں بلکہ عام لہجہ میں طویل گفتگو کر کے کسی خاص نقطے کو دریافت کرنے کا قائل تھا اور ایسا بھی نہیں تھا کہ سقراط اپنے دوستوں کو ٹھوس مشورہ دے کر اپنی بات پر عمل کرواتا۔
دراصل، سقراط اس بات کی دعویٰ کرتا تھا کہ وہ کچھ بھی نہیں جانتا ہے۔ وہ اپنے ساتھیوں کے جوابات پر مزید سوالات اٹھا کر بات کو گہرائی تک لے جانے کا استاد تھا اور اس عمل سے سقراط ہر بات کے پیچھے کی منطق کی چھان بین، خوبیاں، خامیاں تلاش کرنے کے بعد اپنے شاگردوں اور اجنبیوں کو جرتمندانہ نقطہ قائم کرنے کی صلاحیت دیتا تھا۔ سقراط کی انہی باتوں کی وجہ سے وہ اپنے شاگردوں کا محبوب استاد بن گیا تھا۔ اس کے دو شاگرد افلاطون اور زینوفون سقراط سے اس درجہ متاثر ہوئے کہ انہوں نے اپنے استاد کے اس عمل کو افسانوی مکالموں کا روپ دے دیا اور اس کو سقراطی طریقہ Socratic Method کا نام دیا۔
سقراطی طریقے سے مراد سوالات اٹھانے کی مشق ہے جس میں دو یا دو سے زیادہ لوگوں کے درمیان کسی بھی بات کو غلط یا درست ثابت کرنے کے لئے تنقیدی سوچ سے، عام رواجی خیالات کو رد کرنا ہے یا سادہ الفاظ میں بحث و مباحثے کے سہارے کسی بھی بات پر واضح اور حتمی خیال قائم کرنا ہوتا ہے۔
سقراطی طریقے کے ایک ایسے ہی افسانوی مکالمے میں سقراط، یوتھیڈیمس نامی ایک نوجوان سے بات کر رہا ہوتا ہے۔ یوتھیڈیمس کو یقین ہے کہ وہ انصاف اور ناانصافی، جھوٹ اور سچ کی نوعیت کو پر اعتماد طریقے سے سمجھتا ہے۔ جب کہ سقراط اس کی اقدار جاننے کے لئے اسے جھوٹ اور چوری جیسے کاموں کو درست یا غلط قرار دینے کے لئے کہتا ہے۔
چناچہ، یوتھیڈیمس چوری اور جھوٹ کو ایک دم غلط قرار دے دیتا ہے۔ جس پر سقراط مزید سوال کرتا ہے کہ اگر کوئی جرنیل، دشمن فوج کو شکست دینے کے لئے جھوٹ یا چوری کا سہارا لیتا ہے تو کیا وہ درست عمل ہوگا؟
جس پر یوتھیڈیمس اپنے پہلے والے جواب پر نظرثانی کرتا ہے اور اس کا جواب ہوتا ہے کہ جھوٹ اور چوری اگر کسی دشمن کے خلاف ہے تو وہ جائز ہے لیکن اگر کسی اپنے کے خلاف ہے تو وہ غلط ہے۔ لیکن سقراط یہاں پر ختم نہیں ہوتا اور اس کا مزید سوال ہوتا ہے کہ اگر کوئی جرنیل "اپنے" فوجی دَستوں کے حوصلے بلند کرنے کے لئے جھوٹ کا سہارا لیتا ہے تو کیا یہ درست عمل کہلائے گا؟ جس پر یوتھیڈیمس اکتا جاتا ہے اور اب وہ چوری اور جھوٹ پر اپنے نقطہء نظر سے مایوس ہوجاتا ہے اور وہ کوئی بھی نتیجہ نکالنے سے قاصر ہے کہ آخر چوری اور جھوٹ واقعی درست عمل ہے یا سراسر غلط ہے!
اس طرح کے سوالات کی بناء پر سقراط نے خود کو بچہ جنوانے والی دائی Midwifeقرار دیا تھا جو دوسروں کو ان کے خیالات کو جنم دینے میں مدد کرتا ہے۔ اس کا سوال کرنے کا طریقہ مفروضات کو رد کردیتا ہے اور نئے خیالات کے چیلنج کو جنم دیتا ہے۔
سقراطی طریقہ ہمیشہ حتمی جواب فراہم نہیں کرتا لیکن یہ طریقہ سوالات کو واضح کرنے اور مفروضے کو ختم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اس میں سوال پوچھنے والے اور جواب دینے والے دونوں ایسی صورتحال میں پہنچ جاتے ہیں جس کا ان کو پہلے گمان نہیں ہوتا۔ یہ تکنیک صرف بات چیت کی حد تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ متعدد شعبوں میں ناقابل یقین حد تک مفید بھی ہے۔
یورپ میں قرون وسطیٰ کے بعد نشاۃ ثانیہ (رنے سانس) کے دوران، یہ طریقہ طبی ادویات کا علم سکھانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ طالب علموں کو مرض کی تشخیص کے لیے اپنے دلائل پیش کرنے کے لئے کہا جاتا تھا اور ایک ڈاکٹر استاد ان کے مفروضوں پر سوال اٹھاتا تھا۔ طبی لحاظ سے، سقراطی طریقے نے حتمی نتائج بھی پیدا کئے۔ یہی طریقہ بعد میں دیگر علوم جیسے فلکیات، نباتیات اور ریاضی astronomy, botany and mathematics میں استعمال ہوا۔ مذہب میں عیسائیت پر سوالات اٹھائے گئے۔ اُنیسویں صدی میں یہ طریقہ امریکہ میں قانونی تعلیم کا ایک لازمی حصہ بن گیا۔
سقراطی طریقہ آج بھی امریکہ کی سپریم کورٹ کی جانب سے قانون کی منظوری کے بعد کے اثرات کا جائزہ لینے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ سقراطی طریقے کو تقریباً کسی بھی موضوع کو پڑھانے کے لیے اپنایا جا سکتا ہے کیونکہ یہ مکمل طور پر تنقیدی وضاحت پر انحصار کرتا ہے لیکن اس کی کامیابی کا انحصار صرف ایک ماہر استاد پر ہے جو اسے استعمال کرنا جانتا ہو۔
ایک مؤثر سقراطی استاد کو اس کے مضمون میں اچھی طرح عبور ہونا چاہیے۔ اپنے طلباء کو غنڈہ گردی کرنے یا اپنی اعلیٰ ذہانت کا مظاہرہ کرنے کی بجائے، انہیں معمولی، حقیقی طور پر متجسس، اور ہر بات کی تصدیق کرنی چاہیے۔ مورخین کا خیال ہے کہ سقراط ایتھنز کے جمہوریت کے گہرے ناقد ہیں اور وہ اپنے خدشات کو اپنے پیروکاروں تک پہنچانے کے لیے جانا جاتا ہے۔ سقراط کے تنقیدی عقائد کو عوامی فورمز پر توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا جس نے اس کے دو شاگردوں کو غداری کے انجام تک پہنچایا۔
ان خیالات کی وجہ سے سقراط کو مقدمے میں لایا گیا تھا اور آخر کار اسے موت کی سزا سنائی گئی۔ لیکن آج بھی فنکار سقراط کی بستر مرگ پر ایک "پرسکون فلسفی" کی تصویر کشی کرتے ہیں جو حتمی سوال کو تلاش کرنے کے لیے تجسس میں نظر آتا ہے۔