کل کبھی نہیں آتا

کل کبھی نہیں آتا
  • November 6, 2024
  • 245

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک قصبے میں علی نام کا ایک نوجوان طالب علم رہتا تھا۔ علی ایک روشن لڑکا تھا، اور ہر کوئی جانتا تھا کہ اس میں بڑی صلاحیت ہے۔ اس کے اساتذہ اکثر اس کی تعریف کرتے تھے، کہتے تھے کہ اگر ذہن لگاتا ہے تو وہ حیرت انگیز چیزیں حاصل کر سکتا ہے۔ لیکن علی کو ایک بڑا مسئلہ درپیش تھا  کہ وہ بہت سست تھا۔

علی ہر روز اپنی کتابوں کو اپنے بیگ میں صاف ستھرا رکھ کر اسکول جاتا تھا، لیکن وہ شاید ہی کبھی انہیں کھولتا تھا۔ اپنے اسباق پر توجہ دینے کے بجائے، وہ کھڑکی سے باہر دیکھتا، ان تمام دلچسپ چیزوں کے خواب دیکھتا جو وہ کسی دن کرے گا۔ وہ ہمیشہ اپنے آپ سے کہتا تھا، "میں کل پڑھوں گا۔" لیکن جب کل ​​آتا تو وہ کوئی اور بہانہ ڈھونڈتا اور پھر سے ٹال دیتا۔

علی کے دوستوں نے اس کی مدد کرنے کی کوشش کی۔ "آؤ ہمارے ساتھ پڑھو علی! امتحانات آنے والے ہیں، اور ہم سب کو تیاری کرنے کی ضرورت ہے،‘‘ لیکن علی صرف کندھے اچکا کر جواب دیتا، "فکر نہ کرو۔ میں کل شروع کروں گا۔" اور اسی طرح دن ہفتوں میں اور ہفتے مہینوں میں بدل گئے۔

ایک دن، اسکول نے اعلان کیا کہ فائنل امتحانات میں صرف ایک مہینہ باقی ہے۔ طلباء توانائی کے ساتھ گونج رہے تھے، اپنے نوٹ پر نظر ثانی کر رہے تھے، دیر تک جاگ رہے تھے، اور اپنی بہترین کارکردگی کے لیے سخت محنت کر رہے تھے۔ لیکن علی پھر بھی اپنی سست عادت کو نہیں چھوڑ سکا۔ "ایک مہینہ کافی وقت ہے،" اس نے اپنی کرسی پر بیٹھتے ہوئے خود سے کہا۔ ’’جب امتحانات قریب ہوں گے تو پڑھوں گا۔‘‘

لیکن جیسے جیسے دن گزرتے گئے، اس کے دوست مزید سنجیدہ ہوتے گئے، اور اس کے اساتذہ نے سب کو پڑھنا یاد دلایا۔ علی نے پریشانی کا ایک چھوٹا سا احساس محسوس کیا لیکن جلدی سے اسے ایک طرف ہٹا دیا۔ ’’میں انتظام کروں گا،‘‘ اس نے سوچا۔ "آخر میں، میں ہوشیار ہوں. میں صرف آخری لمحات میں تھوڑی سی تیاری کروں گا۔"

آخرکار، بڑے امتحانات سے پہلے کی رات آگئی۔ علی نے اپنی کتابیں نکالیں، اور ہر چیز کو ختم کرنے کا ارادہ کیا جو اس نے یاد کیا تھا۔ لیکن جیسے جیسے وہ صفحات پلٹتا گیا، اس کا سر چکرانے لگا۔ بہت کچھ تھا جسے وہ سمجھ نہیں پایا۔ اس نے کلاس میں توجہ نہیں دی تھی یا اپنا ہوم ورک نہیں کیا تھا، اور اب اسباق نمبروں، الفاظ اور فارمولوں کی الجھی ہوئی گڑبڑ کی طرح لگ رہے تھے۔ اس کے اندر گھبراہٹ پھیل گئی کیونکہ اسے احساس ہوا کہ وہ یہ سب ایک رات میں نہیں سیکھ سکتا۔

علی دیر تک جاگتا رہا، سب کچھ یاد کرنے کی کوشش کرتا رہا، لیکن اس کا تھکا ہوا دماغ نہیں کر سکا۔ اگلی صبح، وہ تھکے ہارے اسکول پہنچا، اس کی آنکھوں کے نیچے سیاہ دھبے تھے۔ جیسے ہی وہ اپنا امتحان دینے بیٹھا، اس نے گھبراہٹ اور بے یقینی محسوس کی۔ کاغذ پر سوالات اجنبی لگ رہے تھے، جیسے وہ کسی ایسی زبان میں لکھے گئے ہوں جسے وہ سمجھ نہیں سکتا تھا۔

نتائج سامنے آئے تو علی کا دل ڈوب گیا۔ وہ اپنے بیشتر امتحانات میں فیل ہو گیا تھا، جبکہ اس کے دوست جنہوں نے سارا سال محنت کی تھی اچھے نمبروں سے پاس ہو گئے تھے۔ اس نے دیکھا جب وہ اپنی کامیابی کا جشن منا رہے تھے، اپنے آپ میں شرمندہ اور مایوس تھے۔

اس کے استادوں میں سے ایک نے اسے آہستہ سے ایک طرف کھینچا اور کہا، "علی، تم ایک روشن لڑکے ہو، لیکن صرف ذہانت کافی نہیں ہے۔ محنت وہ ہے جو صلاحیت کو کامیابی میں بدل دیتی ہے۔"

اس دن سے، علی نے مسلسل کوشش کی اہمیت کو سمجھا۔ اس نے اپنے آپ سے وعدہ کیا کہ وہ کبھی بھی سستی کو دوبارہ نہیں روکے گا۔ جب اگلا تعلیمی سال شروع ہوا، اس نے کلاس میں توجہ دی، اپنا ہوم ورک مکمل کیا، اور باقاعدگی سے پڑھائی کی۔ آہستہ آہستہ، اس نے اپنے درجات کو بہتر ہوتے دیکھا، اور اس کا اعتماد بڑھتا گیا۔ علی نے مشکل طریقے سے سیکھا کہ کامیابی چھوٹے، مستقل قدموں سے حاصل ہوتی ہے— ہر دن، نہ صرف ایک رات پہلے۔

کہانی کا سبق: آج کی محنت اور نظم و ضبط کل کی کامیابی کا باعث بنتے ہیں۔ جو کچھ آپ ابھی کر سکتے ہیں اسے بعد میں مت چھوڑیں۔

You May Also Like