پلاسٹک کی ایک مختصر تاریخ
- March 6, 2023
- 656
ہمارے ارد گرد کے ماحول میں ایک عام لیکن ضروری چیز ہے۔ یہ ہماری روزمرہ کی زندگی کے تقریباً ہر پہلو کا حصہ ہے۔ ہمارے کھانے سے لے کر جو لباس ہم پہنتے ہیں اور جو اشیاء ہم استعمال کرتے ہیں ان میں پلاسٹک لازمی استعمال ہوتا ہے۔ لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ پلاسٹک قدرتی مواد نہیں ہے اور اس کی تاریخ لکڑی، پتھر اور دھات جیسے دیگر مواد کے مقابلے نسبتاً مختصر ہے۔ آیئے پلاسٹک کی مختصر تاریخ پر نظر ڈالیں اور اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
پلاسٹک کا نقطہء آغاز The origin of plastic
پلاسٹک پہلی بار ایک برطانوی موجد الیگزینڈر پارکس نے 1856 میں ایجاد کیا تھا۔ پارکس ایک ایسے مواد کی تلاش میں تھے جسے ہاتھی کے دانت کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جا سکے کیونکہ بلئرڈ بالز، پیانو کیز اور دیگر مصنوعات کی زیادہ مانگ کی وجہ سے ہاتھی کے دانت نایاب ہوتے جا رہے تھے۔ پارکس نے بالآخر کافور camphor اور الکحل کے مرکب میں نشاستہ دار مادہ یعنی سیلولوز cellulose کو تحلیل کرکے ایک ایسا مواد تیار کرنے کا طریقہ ڈھونڈا جسے اس نے "پارکیسین" "Parkesine" کا نام دیا۔ پارکیسین دنیا کا پہلا پلاسٹک تھا اور اسے کنگھی، بٹن اور زیورات سمیت دیگر مصنوعات کی وسیع تعداد بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔
بیکلائٹ کا عروج The Rise of Bakelite
20 ویں صدی کے اوائل میں، بیلجیئم کے ایک ماہر کیمیادان Leo Hendrik Baekeland HonFRSE نے ایک اور پلاسٹک کا مواد یعنی "بیکلائٹ" ایجاد کیا تھا۔ بیکلائٹ ایک تھرموسیٹنگ پلاسٹک thermosetting plastic تھا جسے فینول اور فارملڈہائیڈ phenol and formaldehyde کو ایک ساتھ گرم کرکے بنایا گیا تھا۔ بیکلائٹ انتہائی مضبوط اور پائیدار تھی اور اسے کسی بھی شکل میں ڈھالا جا سکتا تھا۔ بیکلائٹ کو مصنوعات کی ایک وسیع تعداد بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا جس میں الیکٹریکل انسولیٹر، ٹیلی فون، اور یہاں تک کہ کار کے پرزے بھی شامل تھے۔ بیکلائٹ بڑے پیمانے پر تیار ہونے والا پہلا پلاسٹک بھی تھا جس نے اسے روزمرہ کے صارفین کے لیے سستا بنایا گیا تھا۔
نائلون کی ایجاد The advent of Nylon
1920 کی دہائی کے آخر میں، امریکہ کی ایک ماہرِ کیمیادان Wallace Hume Carothers نے ایک نیا پلاسٹک کا مواد ایجاد کیا جسے نائلون کہتے ہیں۔ نائلون دو کیمیکلز، اڈیپک ایسڈ اور ہیکسامیتھیلینیڈیامین adipic acid and hexamethylenediamine کو ملا کر بنایا گیا تھا۔ نائلون انتہائی مضبوط، ہلکا پھلکا اور گرمی اور کیمیکلز کے خلاف مزاحم تھا۔ نائلون سب سے پہلے خواتین کی جرابیں بنانے کے لئے استعمال کیا گیا تھا جو تیزی سے ایک مقبول فیشن بن گیا۔ نائلون کو دیگر مصنوعات کی ایک وسیع تعداد بنانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا جس میں ٹوتھ برش، فشنگ لائنز اور پیراشوٹ شامل تھے۔
پلاسٹک کا انقلاب The plastic revolution
دوسری جنگ عظیم کے بعد پلاسٹک کا استعمال زور پکڑ گیا۔ کھلونوں اور آلات سے لے کر گاڑیوں اور ہوائی جہازوں کے پرزے بنانے تک ہر چیز بنانے کے لیے پلاسٹک کا استعمال کیا جانے لگا۔ 1950 کی دہائی میں ایک نئی قسم کی پلاسٹک ایجاد ہوئی جسے پولیتھیلین polyethylene کہتے ہیں۔ پولیتھیلین ہلکا پھلکا، لچکدار اور بڑی مقدار میں بنایا جا سکتا تھا۔ پولیتھیلین تیزی سے پلاسٹک کی مقبول ترین اقسام میں سے ایک بن گئی اور آج بھی بڑے پیمانے پر پلاسٹک کے تھیلوں سے لے کر کھانے کی پیکیجنگ تک ہر چیز بنانے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
پلاسٹک کے ماحولیاتی اثرات The Environmental Impact of Plastic
جہاں پلاسٹک کے بہت سے فوائد ہیں وہاں اس کے ماحولیاتی اثرات بھی نمایاں ہیں۔ سائنس کے ایک جریدے میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق 1950 کی دہائی سے اب تک 8.3 بلین ٹن پلاسٹک تیار کیا جا چکا ہے۔ اس پلاسٹک کا زیادہ تر حصہ سمندروں میں پھینکا جاتا ہے جہاں یہ سمندری زندگی اور ماحولیاتی نظام کو زبردست نقصان پہنچاتا ہے۔ پلاسٹک non-biodegradable مرکب ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ وقت کے ساتھ نہیں ٹوٹتا۔ اس سے مراد یہ ہے کہ آج ہم جو پلاسٹک دیکھتے ہیں وہ سینکڑوں یا ہزاروں سالوں تک موجود رہے گا۔
پلاسٹک کا مستقبل The future of Plastic
پلاسٹک کے ماحولیاتی اثرات کو دیکھتے ہوئے اس سے نئی اشیاء تیار کرنے میں دلچسپی بڑھ رہی ہے جو زیادہ پائیدار اور ماحول دوست ہوں۔ تحقیق کا ایک امید افزا شعبہ بائیو پلاسٹک بھی ہے جو قابل تجدید مواد جیسے مکئی، گنے اور آلو کے نشاستے سے بنایا جاتا ہے۔ بائیو پلاسٹکس میں ہماری انحصار کو کم کرکے پلاسٹک کی وجہ سے ہونے والےماحولیاتی اثرات کو کم کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ تاہم، بائیوپلاسٹکس اب بھی ابتدائی مراحل میں ہے اور فی الحال عالمی سطح پر پیدا ہونے والے پلاسٹک کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ پلاسٹک کے ماحولیاتی اثرات کو کم کرنے کا ایک اور طریقہ ری سائیکلنگ ہے۔ تاہم، پلاسٹک کی ری سائیکلنگ میں بہت سے مسائل ہیں جن میں مہنگی مشینری کی ضرورت اور پلاسٹک کی مختلف اقسام کو الگ کرنے میں مشکلات شامل ہیں۔