ٹائٹینک کی تاریخ
- January 31, 2023
- 485
ٹائٹینک ایک ایسا نام ہے جو انسانی المیہ اور نقصان کا مترادف ہے۔ ایک انگریز صحافی اور سائنس کے استاد لارینس بیسلے Lawrence Beesley (جو اس بدقسمت جہاز کا ایک مسافر تھا) نے زندہ بچ جانے کے بعد ایک کتاب The Loss of The SS Titanic: Its Story and Its Lessons لکھی تھی۔ لارینس نے اپنی اس بک میں ٹائٹنک کے حادثے کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ لارینس کے مطابق آر ایم ایس ٹائٹینک ایک فینسی جہاز تھا جو 15 اپریل 1912 کو شمالی بحر اوقیانوس میں رات کے 2:20 منٹ پر بحر اوقیانوس میں ایک برفانی تودے Iceberg سے ٹکرا کر ڈوب گیا تھا۔ اس اندہوناک واقعے کو بہت سی کتابوں، مضامین اور فلموں میں بیان بھی کیا گیا ہے (جیسے کیٹ ونسلیٹ اور لیونارڈو ڈی کیپریو کے ساتھ 1997 کی فلم)۔
لوگ ٹائی ٹینک کی کہانی کو ایک انتباہ کے طور پر بھی یاد کرتے ہیں کہ بہت زیادہ پراعتماد ہونا کتنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ سنہ 1912 میں اس بیڑے کے ڈوب جانے پر کی جانے والی تحقیق "The Titanic Disaster Hearths: The Official Transcripts of the 1912 Senate Investigation" (1998) کے مطابق، "دیو قامت ٹائٹینک میں صرف 20 لائف بوٹس تھیں جو اس پر سوار مسافروں کے تناسب کے حوالے سے بہت کم تھیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جہاز بنانے والے اس کے نہ ڈوبنے کہ وجہ یہ بتا رہے تھے کہ ٹائٹنک جدید حفاظتی خصوصیات سے لیس تھا، جیسے واٹر ٹائٹ کمپارٹمنٹس اور ایک جدید وائرلیس کمیونیکیشن سسٹم، جن کے بارے میں خیال کیا گیا تھا کہ یہ تباہی سے بچنے کے لیے کافی تھے"۔
نتیجے کے طور پر، ہلاکتوں کی زیادہ تعداد کا ایک بڑا سبب یہی تھا۔ کیونکہ مصیبت کے وقت بھگدڑ اور حواس باختہ ہونے پر بہت سے مسافر ان ناکافی لائف بوٹس تک پہنچ ہی نہیں سکے تھے اور جہاز کو ڈوبنے کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا۔
ٹائی ٹینک کی تعمیر ایک یادگار کام تھا اور اس کے لیے ہزاروں لوگوں کی مہارت اور محنت درکار تھی۔ یہ جہاز بیلفاسٹ، آئرلینڈ میں ہارلینڈ اور وولف کے شپ یارڈ میں بنایا گیا تھا اور اسے مکمل ہونے میں تین سال سے زیادہ کا عرصہ لگا۔ ٹائٹینک بحری جہاز، انجینئرنگ کا ایک زبردست کمال تھا اور یہ اس وقت کی جدید ترین ٹیکنالوجیز بشمول الیکٹرک لفٹ، ایک سوئمنگ پول، اور جدید ترین حرارتی اور وینٹیلیشن سسٹمز سے لیس تھا۔
ٹائیٹینک کی تعمیر
انسائیکلوپیڈیا ڈاٹ ٹائیٹانیکا کے مطابق ٹائی ٹینک ایک برطانوی شپنگ کمپنی وائٹ سٹار لائن کے تخیل کی پیداوار تھی جو ایسے مسافر بحری جہازوں کو جدید طرز پر بنانا چاہتی تھی جو دنیا کے سب سے بڑے اور پرتعیش ہوں۔[1] کمپنی نے تین بحری جہازوں، اولمپک، ٹائٹینک اور برٹانک کی تعمیر کا کام شروع کیا جس میں ٹائٹینک تینوں میں سب سے بڑا اور عظیم الشان تھا۔ ٹائٹینک کی تعمیر 1909 میں بیلفاسٹ، آئرلینڈ میں ہارلینڈ اینڈ وولف شپ یارڈ میں شروع ہوئی۔ وائٹ سٹار لائن کا ٹائیٹنک کو بنانے کا مقصد اس جہاز کو اپنے وقت کا سب سے بڑا اور پرتعیش لائنر ہونے کے ساتھ ساتھ وائٹ سٹار لائن کا پرچم بردار ہونا تھا۔ جب یہ 1912 میں مکمل ہوا تو ٹائی ٹینک 882 فٹ لمبا، 175 فٹ اونچا اور تقریباً 46,000 ٹن وزنی تھا۔ اس میں 2,435 مسافروں اور عملے کے 892 ارکان کی گنجائش تھی، اور یہ مختلف قسم کی جدید خصوصیات بشمول الیکٹرک لائٹس، نجی باتھ رومز، اور ایک سوئمنگ پول سے لیس تھا۔
ٹائیٹنک کا پہلا سفر
سنہ 1912 میں تعمیر ہونے کے بعد ٹائٹینک جہاز اِسی سال یعنی 10 اپریل 1912 کو انگلینڈ کے ساؤتھمپٹن سے اپنے سب سے پہلے اور بدقسمت سفر کی طرف گامزن ہوا تھا اور بحر اوقیانوس کے اُس پار نیو یارک شہر میں پہنچنے سے پہلے چیربرگ، فرانس اور کوئنس ٹاؤن (جو اب کوب کے نام سے جانا جاتا ہے) آئرلینڈ میں رکا۔ جہاز میں سوار مسافروں میں اس وقت کے چند امیر ترین اور بااثر افراد کے ساتھ ساتھ امریکہ میں نئی زندگی کی تلاش میں جانے والے تارکینِ وطن بھی شامل تھے۔ یہ سفر جہاز میں موجود تمام لوگوں کے لیے ایک پرتعیش اور پرلطف سفر ہونے کی توقع تھی، لیکن ایسا نہیں ہوا۔
بدقسمت جہاز کا المیہ: رائل میل ٹائٹینک کو یاد کرنے والے عوام پر اس کے اثرات"۔
رائل میل شپ Royal Mail Ship کے ٹائٹینک جہاز میں 2,200 سے زیادہ مسافر اور عملہ تھا جس میں سے 1500 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ٹائی ٹینک ایک بہت بڑا جہاز تھا – 883 فٹ لمبا، 92 فٹ چوڑا اور وزن 52,310 ٹن تھا۔ یہ نیچے سے اوپر تک 175 فٹ اونچا تھا جس میں سے تقریباً 35 فٹ پانی کے نیچے تھا۔ ٹائٹینک اس وقت کے شہروں میں بنی ہوئی عمارتوں سے اونچا تھا۔ اُس وقت ٹائٹینک جہاز، انسانوں کی تخلیق کردہ سب سے بڑی حیران کن چیز تھی۔ پریس نے جہاز کو "نا ڈوبنے والا" قرار دیا تھا لیکن اس بدقسمت بحری جہاز کے ڈوبنے کا عوام پر گہرا اثر ہوا اور اسے کئی سالوں سے مختلف طریقوں سے یاد کیا جاتا ہے۔ ٹائٹینک کے متاثرین کو کئی یادگاریں اور خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ ساؤتھمپٹن، انگلینڈ میں "ٹائٹینک میموریل"، اس حادثے میں اپنی جانیں گنوانے والے عملے کے ارکان کو خراج تحسین پیش کرتا ہے۔بیلفاسٹ، آئرلینڈ میں واقع "ٹائٹینک میموریل گارڈن" بنایا گیا ہے جہاں یہ بدقسمت جہاز "ٹائٹینک" بنایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ، بیلفاسٹ، آئرلینڈ میں ہی "ٹائٹینک بیلفاسٹ وزیٹر سینٹر" جہاز اور تباہی کی تفصیلی تاریخ پیش کرتا ہے ۔ اِس حادثے کو، امن کے زمانے میں، سمندر میں آنے والی بدترین آفات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
ٹائیٹنک کا ڈوبنا دنیا میں اتنا مشہور کیوں ہے؟
ٹائی ٹینک کئی وجوہات کی بناء پر مشہور ہے۔ ان میں سے کچھ کا یہاں ذکر کرتے ہیں۔
· ٹائٹنک دنیا کا سب سے بڑا جہاز تھا۔
· یہ اپنے پہلے سفر میں ڈوب گیا تھا۔
· اس کے کیپٹن کو راستے میں برف کی بہت سی وارننگیں ملی لیکن ان سب کو نظر انداز کرتے ہوئے اس نے رفتار کم نہیں کی۔
· جہاز میں تمام لوگوں کے لیے لائف بوٹس کافی نہیں تھیں۔
· بہت سے عملے اور ادائیگی کرنے والے مسافروں نے اپنی جانیں گنوائیں لیکن وہ شخص جو ٹائٹینک کا مالک تھا کسی طرح بچ گیا۔
· کروڑ پتیوں کے ساتھ ساتھ شدید غربت میں مبتلا لوگوں کے ساتھ مسافروں اور عملے کا متنوع امتزاج تھا اور ہمارے پاس ان کی زندگی کی بہت سی دلچسپ کہانیاں رہ گئی ہیں۔
ٹائٹنک کے بارے میں پراسرار بیانیہ
1912 میں ٹائٹنک کا ڈوبنا بڑے پیمانے کی تباہی تھی اور اس نے 100 سال سے زیادہ عرصے سے عوام کو اپنے سحر میں جکڑ رکھا ہے۔ انگریزی اخبار روزنامہ ڈان کے مطابق ٹائی ٹینک کے حوالے سے بیان کردہ افسانوں میں سے ایک یہ دعویٰ ہے کہ یہ جہاز ایک خانہ بدوش کی پیشین گوئی کی وجہ سے ڈوب گیا تھا۔