وادی سندھ کی تہذیب

وادی سندھ کی تہذیب
  • February 9, 2023
  • 684

سنہ 1918 میں آرکیالوجی سروے آف انڈیا Archeology Survey of India کے ایک قابل افسر راکھل داس بینرجی Rakhal Das Banerjee قدیمی یادگار Stupa کی کھوج میں جنوبی پنجاب کے شہر بہاولپور آتے ہیں۔ یہ artefacts سکندرِ اعظم نے سو ا تین سو قبل مسیح کے دور میں، بیاس ندی کے کنارے پر تعمیر کروائے تھے جن پر یونانی اور ہندی زبان میں نوِشتہ بھی تحریر کروائے تھے۔ چار سال کی مسلسل کھوج میں ،بینر جی نے چھوٹے بڑے 80 قدیمی ٹیلے Mounds دریافت تو کر لئے تھے لیکن بدقسمتی سے ان سارے آثار کا تعلق بدھ Buddhism کے زمانے سے ہوتا ہے جو سکندراعظم کے زمانے سے بھی پہلے کا دور تھا۔ 

یوں سکندر اعظم کی یادگار کی کھوج میں، سنہ 1922 میں بینرجی، لاڑکانہ شہر سے تقریباً 24 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک تحصیل "ڈوکری" Tehsil Dokri سے 6 میل دور دریائے سندھ کے کنارے پر قائم ایک تاریخی مقام پر پہنچتے ہیں۔ اس جگہ پر اک "اسٹوپا" قائم ہے جس کو  مقامی افراد، نسلوں سے سینہ بہ سینہ "موئن جو دڑو"  کے نام سے پکارتے ہیں اور بینرجی کو مزید بتایا جاتا ہے کہ یہ اسٹوپا کسی زمانے میں بدھ دور کا ایک مندر تھا۔ لیکن بینرجی (جو آرکیالوجی سروے آف انڈیا کے قابل افسر ہیں)، مقامی افراد کے جواب سے متجسس ہوتے ہیں کیونکہ وہ گذشتہ چار برس سے متعدد قدیمی آثار دریافت کر چکے تھے جو بدھ دور سے تعلق رکھتے تھے لیکن یہ اسٹوپا ان سے مختلف نظر آرہا تھا کیونکہ اس اسٹوپا کو منصوبہ بندی سےدریائے سندھ کی سطح سے 46 فٹ کی بلندی پر تعمیر کیا گیا تھا۔ 

تحصیل ڈوکری سے 6 میل دور اس اسٹوپا پر مزید تحقیق کے لئے، کھدائی کے دوران بینرجی کچھ مُہریں stamps (seal)دریافت کرتے ہیں جو بدھ دور سے بھی قدیم ہیں اور ان مہروں پر کچھ لکھا ہوا دکھائی دیتا ہے اور بینرجی اس تحریر کو سمجھنے کے لئے بے بس ہیں۔ لیکن بینرجی کے مطابق یہ تحریر ہڑپہ کی تہذیب (جو عین اسی دور میں دریافت ہوئی تھی) سے ملنے والی تحریر سے مماثلت رکھ رہی تھی۔  بینرجی بھانپ لیتے ہیں کہ ملنے والی یہ مُہریں کسی نرالی تہذیب کو بیان کر رہی ہیں!!!

"موئن جو دڑو" کا مطلب کیا ہے؟

بینرجی کی اس شاندار دریافت کو آگے چل کر ایک انگریز ماہرِ آثار قدیمہ سر جان مارشل جو آرکیالوجی سروے آف انڈیا کے ڈائرکٹر جنرل تھے، نے مزید تقویت دی اور "موئن جو دڑو" کی پانچ ہزار سال پرانی مدفون تہذیب کو پوری دنیا میں دوبارہ متعارف کروایا۔  سر جان مارشل کے مطابق یہ دراصل "موہن جو دڑو" ہے جو کسی ہندو مہاراجہ کے نام سے منسوب ہے۔ لیکن مقامی لوگوں کی جانب سے اس جگہ کو "موئن جو دڑو"  یعنی "مُردوں کا ٹیلہ" Mound of deadکہا جاتا ہے۔

وادئ سندھ کی تہذیب کے مزید شہروں کی دریافت

تحصیل ڈوکری سندھ،کے قریب "موئن جو دڑو" شہر کی دریافت سے پہلے اور بعد میں، وادی سندھ کی تہذیب سے  وابستہ 1400 سے زائد مقامات کی دریافت ہوئی، جن میں سے 925 مقامات بھارت میں اور 475 مقامات پاکستان میں آج تک موجود ہیں۔ جب کہ خیال کیا جاتا ہے کہ افغانستان میں کچھ مقامات بھی وادئ سندھ کی تہذیب سے تعلق رکھتے ہیں۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 1400 سے زائد ان مقامات کو وادئ سندھ سے ہی کیوں منسوب کیا گیا؟ اس کا جواب کچھ یوں ہے، کہ آر ڈی بینرجی کی جانب سے دریافت ہونے والا ، ڈوکری تحصیل سے متصل قدیمی شہر "موئن جو دڑو" دراصل Indus Valley Civilisation کا ہیڈکوارٹر تھا اور یہ شہر سندھو ندی Indus River کے کنارے پر واقع ہے۔ اسی طرح دریائے سندھ کے نام کے پیچھے اس تہذیب کو Indus valley civilization کہا گیا۔

ایک شاندار تہذیب

موجودہ پاکستان میں، 250 ایکڑ رقبہ پر بنا ہوا قدیمی شہر موہنجو دڑو میں گلیوں کی اچھی منصوبہ بندی اور نکاسی آب کا عمدہ نظام تھا، یعنی یہاں پر بسنے والے لوگ شہر بنانے کے ماہر تھے اور پانی کا کنٹرول جانتے تھے۔ تاہم، شہر میں بڑے بڑے محلات یا مندر نہیں تھے اور نہ ہی کسی ایک رہنما یا حکمران ہونے کا کوئی ثبوت ملا ہے۔ لوگ سادہ چیزوں لیکن صفائی اور عمدہ رہن سہن کو ترجیح دیتے تھے۔ یہ لوگ مٹی کے برتن، اوزار اور دوسری چیزیں بنانے میں بھی مہارت رکھتے تھے اور تجارت کے لیے مُہروں اور وَزن کا استعمال کرتے تھے۔

شہر کے دولتمند ہونے کا ثبوت، ہاتھی کے دانت، لاپیس، کارنیلین، اور سونے کے موتیوں کے ساتھ ساتھ پکی ہوئی اینٹوں سے بنے ہوئے شہر کے ڈھانچے سے ظاہر ہوتا ہے۔ یہاں ایک سوئمنگ پول تھا جسے گریٹ باتھ کہا جاتا ہے۔ جب کہ پورے شہر میں کنویں پائے گئے ہیں اور تقریباً ہر گھر میں نہانے کی جگہ اور نکاسی آب کا نظام بھی موجود تھا۔نیشنل جیوگرافک کے مطابق یہ سارے عوامل صفائی پسند معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں۔

ایک گتھی جو کبھی سلجھائی نہیں گئی!

وادی سندھ کی تہذیب کے بے شمار دلچسپ رازوں میں سے ایک راز، اس تہذیب کا رسم الخط ہے۔ اس تہذیب سے ملنے والی تحریروں کی تعداد 5000 سے زیادہ ہے لیکن دنیا کے ماہرین ان کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔

وادی سندھ کی تہذیب کو جنم دینے والے کون لوگ تھے؟

اس شاندار تہذیب کو بنانے والے "دراوڑ" Dravidianنسل کے لوگ تھے جو زوال کے بعد یہاں سے ہجرت کر گئے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ لوگ جنوبی ایشیائی ممالک سے یہاں آئے تھے۔

آخر میں

وادی سندھ کی تہذیب جدید شہری منصوبہ بندی اور جدید ترین انجینئرنگ کی گمشدہ دنیا تھی۔ دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہونے کے باوجود، اس کے بارے میں بہت کچھ ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔ اس قدیم تہذیب کے رازوں سے پردہ اٹھانے اور دنیا پر اس کے دیرپا اثرات کو سمجھنے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

You May Also Like