زیر زمین اربن فارمننگ کی پوشیدہ دنیا
- June 4, 2023
- 388
اب جبکہ شہری تعمیرتیزی سے بڑھ رہی ہے ، وہاں پیداوار کے لیے محدود جگہ اور وسائل کے لئے نئے حل نمودار ہو رہے ہیں۔ ایسا ہی حل ہے زیرزمینی شہری کاشت جو روایتی زراعات کے متعارف طریقہ کار کو بدلتے ہوئے تیزی سے مقبول ہو رہا ہے۔ اس زمین کی پوشیدہ دنیا میں، کسانوں ،کاروباری لوگوں اور سائنسدانوں کا تعاون ہوتا ہے جو خود مختار اور ماحولیاتی طور پر ایک نظام تشکیل دے رہے ہیں۔
سپر مارکیٹوں کے خالی شیلف اب ہم جیسے بہت سے لوگوں کے لیے معمول کی بات بن چکے ہیں۔ اور جب سپر مارکیٹوں میں شیلف دوبارہ بھر بھی جائیں تو ان سٹورز میں داخل ہونے کے لیے گاہکوں کی لمبی لمبی قطاریں نظر آتی ہیں۔
ہمیں بار بار بتایا جاتا ہے کہ خوراک کی کمی نہیں ہے لیکن اصل مسئلہ اس خوراک کو لوگوں تک پہنچانا ہے۔ کورونا کی وبا کے باعث لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندی کی وجہ سے مزدور کھیتوں تک پہنچ نہیں پا یے، چیزوں کو درآمد کرنے پر پابندیاں عائد رہی جس کی وجہ سے ہول سیل (تھوک) کا کاروبار بری طرح متاثر ہوا جس کی وجہ خوراک کی پیداوار آہستہ آہستہ کم ہوتی گئی، خواہ یہ عارضی ہی کیوں نہ ہو۔
لیکن کیا خوراک کی پیدوار کے لیے ہمارے پاس اس سے بہتر کوئی ذریعہ ہے؟
خوراک کی سپلائی لائن کے فاصلے کو کم کرنے کے لیے ہمیں خوراک کو صارفین کے قریب ہی اگانے کی ضروت ہے۔ کئی بڑے شہروں کے مرکزی علاقوں میں بہت سی ایسی جگہیں موجود ہیں جنھیں استعمال میں لا کر شہریوں کو خوراک کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
مثال کے طور پر امریکہ، شمالی یورپ اور کینیڈا میں سردیوں اور موسم بہار میں تمام تازہ سزیاں اور پھل باہر سے درآمد کیے جاتے ہیں کیونکہ صارفین سارا سال تازہ سبزیوں اور پھلوں تک رسائی چاہتے ہیں۔
خوراک کو صارفین کے نزدیک ہی اگانے کی باتیں کہنے کو اچھی لگتی ہیں لیکن ایسا ممکن بنانے کے لیے بہت ساری زمین کی ضرورت ہے۔
جدید سائنسی آلات کی مدد سے صنعتی پیمانے پر کاشتکاری نے خوراک کی قیمتوں میں کمی کی ہے اور لوگوں کی خوراک تک با آسانی رسائی ممکن ہو پائی ہے۔
لیکن ایسے بڑے فارمز بنانے کے لیے بڑی زمینوں اور بڑی مشینوں کی ضرورت ہوتی ہے جو صارفین کے قریب ممکن نہیں ہے۔
اگر ہم چاہتے ہیں ہم خوراک کو شہروں کے قریب پیدا کریں جہاں زیادہ صارفین موجود ہیں تو پھر ہمیں شہروں میں خوراک اگانے کے لیے زمین تلاش کرنا ہو گی۔
اس کا ایک حل یہ ہے کہ ہم سبزیوں اور پھل کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس انڈور فارمز میں پیدا کریں جیسے جاپان اور سکاٹ لینڈ میں ہو رہا ہے۔
لیکن شہروں میں پہلے ہی ضرورت سے زیادہ عمارتیں تعمیر ہو چکی ہیں اور وہاں خوراک کی پیداوار کی جدید فیکٹری لگانے کے لیے جگہ ڈھونڈنا آسان نہیں۔ اگر ہم شہروں میں جگہیں ڈھونڈیں تو ہو سکتا ہے بہت سے جگہیں مل جائیں ۔
مثال کے طور پر فرانس کے دارالحکومت پیرس میں زیر زمین 600 ہیکٹر خالی جگہ موجود ہے جس کا کوئی یوز نہیں ہے۔
یہ زیر زمین پارکنگ کی جگہیں ہیں۔ ستر کی دہائی میں فرانس میں یہ لازمی تھا کہ ہر فلیٹ کے پاس دو گاڑیاں پارک کرنے کی جگہیں ہونی چاہیں۔
سائیکلوپونک نامی کمپنی کے چیف ایگزیکٹو یاں نویل گرٹز کا کہنا ہے کہ انڈرگراؤنڈ پارکنگ کی یہ جگہیں خالی پڑی ہیں۔ 700 ہیکڑ خالی جہگوں کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ امریکہ میں ایک فارم اوسطً 170 ہیکٹر یعنی 420 ایکڑوں پر مشتمل ہوتا ہے۔
گرٹز کہتے ہیں کہ لوگوں کو یہ سمجھانا مشکل ہے کہ ان خالی جگہوں کو پارکنگ کےعلاوہ بھی کسی اور مقصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
لیکن گرٹز ان خالی جگہوں کو استعمال میں لانے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ وہ زیر زمین کار پارکوں کو زرعی فارمز میں بدل دیں اور وہاں مشروم اور کاسنی کی کاشت کریں۔ یہ دونوں فصلیں باآسانی زیر زمین اگائی جا سکتی ہیں۔
لیکن گرٹز بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ 700 ہیکٹر (1720 ایکٹر) صرف مشروم اور کاسنی کی کاشت کے لیے زیادہ ہے۔
لیکن سائیکلوپونک کا خیال خوراک کی پیداوار کے نئے منصوبوں سے متعلق ہے۔ 'ہم نے ایک این جی او کو جگہ دی ہے جو روزانہ چار ہزار لوگوں کو ہسپتالوں میں کھانا مہیا کراتے ہیں۔ اسی طرح ایک اور کمپنی زیر زمین فارم سے روزانہ 500 سے 1000 خوراک کے پیکٹ پیرس میں لوگوں کو بہم پہنچا رہے ہیں۔
ہمارے پاس خوراک کو منزل تک پہنچانے اور کولڈ سٹوریج کی سہولتیں ہیں اور کھانے کا نیا کاروبار شروع کرنے کے لیے انھی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہیں۔
گرٹز زیر زمین چھوٹے چھوٹے کچن تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔'آخر کار شاید کچھ خوراک زیر زمین ہی اگائی جائے، وہیں اسے تیار کر کے اسے پکا کر پیرس کے وسط سے صارفین تک پہنچایا جائے۔'
گرٹز کہتے ہیں کہ سب سے مشکل کام فائر ڈیپارٹمنٹ سے زیر زمین کاروبار شروع کرنے کی اجازت حاصل کرنا تھی لیکن اب آہستہ آہستہ شہروں میں فارمنگ کے حوالے سے رائےتبدیل ہو رہی ہے۔
کچھ شہری کاشتکار جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے خوراک پیدا کرنے کے نت نئے طریقے ڈھونڈ رہے ہیں۔ سکوائر روٹس شپنگ کنٹینروں میں تبدیلیاں کر کے ان میں زرعی فارمز بنا رہے ہیں. یہ ایک جدید ٹیکنالوجی ہے اور آنے والے وقت کی اہم ضرورت بھی۔