ذائقہ کی سائنس: کھانے کے غیر معمولی امتزاج
- June 4, 2023
- 515
چونکہ ذائقہ مختلف لوگوں کے لئے مختلف ہوتا ہے، لہذا اس سائینس کے ذریعے یہ بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ کون سی خوراکوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر ایک ایسا کھانا بنایا جاسکتا ہے جو ذائقہ کے لئے دلچسپ اور لذیذ ہوتا ہے۔
مختلف خوراکوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ کر بالائی ذائقہ بڑھایا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، سبز پودوں کے ساتھ مٹھاس ہر ایک کے ذائقہ کو بہتر بنا سکتی ہیں۔
۔ مثال کے طور پر، کچے آلو اور شکر کے ملاپ سے مزیدار ذائقہ دار آلو ٹکی بنا سکتی ہیں۔اور بادامی مچھلی کی معطر بھونی ہوئی خوشبو آپ کے منہ میں پانی آنے پر مزید مزیدار بناسکتی ہے-
گراکے تلی ہوئی چکن کی ایک قسم ہے جو جاپان میں اپنی سادگی اور ذائقوں کی پیچیدگی دونوں کے لیے مشہور ہے۔ اس میں چکن پر پوٹیٹو سٹارچ (آلو کا نشاستہ) کو کوٹنگ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ، اس میں چکن نگٹس سائز کے بغیر ہڈی کے گوشت ٹکڑے استعمال ہوتے ہیں جو سویا ساس، ادرک، نمک، لہسن، پھلوں اور دیگر اعلیٰ چیزوں کے مرکب میں میرینیٹ کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر خفیہ اجزا جو ذائقے کو بڑھچاتے ہیں جو ہر نوالے پر آپ کو حیران کر دیتے ہیں۔
لوگ یہاں قطاروں میں کھڑے ہو کراپنے پسندیدہ کھانے کا انتظا رکرتے ہیں حتیٰ کے مشوہر امریکی شیف اینتھونی بورڈین بھی ان کے دیوانے تھے انھوں نے ایک بار کہا ’میں ان ڈیپ فرائیڈ چکن کٹلیٹس کا عادی ہوں۔۔۔ یہ ایک مجرمانہ خوشی دیتے ہیں ۔ مجھے بخوبی معلوم ہے کہ ناریتا انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر لاسن کہاں تلاش کرنا ہے، اور میں انھیں کھائے بغیر کبھی جہاز پر نہیں چڑھتا۔
یہاں تک کہ جاپان کراگے ایسوسی ایشن نے ایک فلم کراگے بنائی‘۔ جس میں اس ذائقہ دار سنیک کو’قومی کھانا‘ قرار دیا گیا۔
لیکن بنیادی طور پر کراگے ایک جو مختلف براعظموں کی کثیر نسل تاریخ کا نتیجہ ہے جو نئی چیزوں کی دریافت، ثقافتی ملاپ، قحط اور عالمی جنگوں پر محیط ہے۔
کراگے کی ابتدا کا سراغ 16 ویں صدی سے ملتا ہے جب پرتگالی مشنری ناگاساکی کی بندرگاہ کے ذریعے کیوشو جزیرے کے جاپانی ساحلوں پر پہنچے اور اپنے ساتھ تلے ہوئے کھاناوں کی ترکیبیں لائے۔ آہستہ آہستہ، جاپانی باشندوں نے ان میں سے کچھ مغربی طریقوں کو اپنانا شروع کیا جسے آج ٹیمپورا سمجھا جاتا ہے۔ تاہم، اس وقت جاپانیوں کی خوراک بنیادی طور پر پمچھلی پر مبنی تھی، اور وہ مرغی یا گوشت نہیں کھاتے تھے جسے ان کے بدھ مت کے عقائد سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔
جزیرے پر اس وقت تک چکن کھانے کا تصور بھی نہیں تھا جب تک یہاں ایک آفت نہیں ٹوٹی تھی۔ کیوہو دور (1716-1736) میں ایک بڑے قحط نے کیوشو جزیرے پر چاول کی فصل کا صفایا کر دیا اور دسیوں ہزار لوگ مارے گئے۔ کیوشو میں لائیو سٹاک پروڈکشن کے مطابق ، مالیات کی بحالی کے لیے، کسانوں کو مزید انڈے فروخت کرنے کے لیے زیادہ پولٹری فارمنگ کرنے کی ترغیب دی گئی اور آخر کار جب یہ مرغیاں انڈے دینے کی عمر سے گزر نکل گئیں تو لوگوں نے انھیں کھانا شروع کردیا۔
اگلی بار جاپان میں غذائی قلت کا آغاز 1868 میں ہوا، جب جاپان کے نئے شہنشاہ نے صنعت کاری، فوجی ٹیکنالوجی اور یہاں تک کہ لوگوں کی خوراک کے حوالے سے مغربی خیالات اپناتے ہوئے معاشرے کی زبردست اصلاح کا آغاز کیا۔ شہنشاہ میجی نے ملک کی سرحدیں کھول دیں اور چین اور مغرب کے پکوانوں کے اثرات کو ملکی ثقافت میں داخل ہونے کی اجازت دی اور اس کا مطلب زیادہ گوشت کھانا تھا۔
لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد تلی ہوئی چکن خاص طور پر کراگے یہاں کی پہچان بن گیا۔ جنگ کے بعد تباہ حال جاپان میں خوراک کی قلت تھی اور چاول کی کمی کے باعت جاپانی خوراک میں ڈرامائی تبدیلی آئی۔ زیادہ تر خوراک نوڈلز پر مبنی پکوانوں میں بدل گئی (جیسے رامن)، نیز برائلر مرغیاں، جو گائے یا خنزیر کی نسبت زیادہ آسان اور تیز ی سے پک جاتیں۔ کیوشو جزیرہ پہلے ہی پولٹری سنٹر کے طور پر جانا جاتا تھا (آج تمام برائلر مرغیوں میں سے آدھے سے زیادہ کیوشو سے آتےیہیں) اور گوشت پکانے کے نئے طریقوں نے بھوک سے بے حال ملک کی مدد کی۔
دنیا کو ’ہیم‘ اور انناس پیزا دینے کا سہرا اس شخص کو جاتا ہے جو نہ تو ہوائی سے تھا اور نہ ہی درحقیقت اطالوی۔ سیم پانوپولس کینیڈا میں ایک یونانی تارکین وطن تھا جو چاتھم، اونٹاریو شہر میں اپنے بھائیوں کے ساتھ ایک ریستوران چلاتا تھا۔
پانوپولس نے پیزا کی جائے پیدائش یعنی نیپلز کا دورہ کیا تھا اور اسے ریستوران کے برگر اور پین کیکس کی معمول کی تیاری میں اٹلی میں عام استعمال کیے جانے والے اجزا کو اپنانے کی ترغیب ملی تھی۔ لیکن اس پر کیا ڈالنا ہے
نھوں نے پنیر اور ٹماٹر کی چٹنی والی پیزا بیس کے اوپر ڈبوں میں دستیاب انناس اور کٹا ہوا ہیم پھیلایا، جس کا خیال شاید انھیں چینی پکوانوں کے میٹھے اور نمکین ذائقے سے متاثر ہو کر آیا اور یوں انناس اور ہیم کو ایک جگہ یکجا کیا گیا۔
کچھ غذائیں ہیم اور انناس پیزا کی طرح ڈرامائی طور پر منقسم ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا و ایشیا کے بہت سے حصوں میں پیزا کے چند مینو اس کے بغیر مکمل نظر آتے ہیں۔
یعنی کھانا پکانے کے نیے انداز اور لزیذ ذائقوں کی دریافت آپ کو ایک بہترین اسکلز دیتی ہے