خالد بن ولید کون تھے

خالد بن ولید کون تھے
  • March 6, 2023
  • 1379

خالد بن الولید، جنہیں سیف اللہ المسلول کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ایک مشہور مسلمان جرنیل گزرے ہیں جنہوں نے ابتدائی اسلامی فتوحات میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ انہیں تاریخ کے عظیم ترین فوجی کمانڈر میں سے ایک کے طور پر جانا جاتا ہے جو اپنی حکمت عملی، جرات اور اسلام کے ساتھ وفاداری کے لیے جانے جاتے ہیں۔ اس مضمون میں، ہم خالد بن الولید کے ابتدائی دنوں سے لے کر ان کے اسلام قبول کرنے تک اور میدان جنگ میں ان کے کارناموں اور ان کی زندگی کا جائزہ لیں گے۔

ابتدائی زندگی اور اسلام قبول کرنا

خالد بن الولید 592 عیسوی میں عرب قبیلہ بنو مخزوم میں پیدا ہوئے جو اس وقت مکہ کے سب سے طاقتور اور بااثر قبائل میں سے ایک تھا۔ ان کا تعلق جنگجوؤں کے خاندان سے تھا اور انہوں نے چھوٹی عمر سے ہی جنگی فن کی تربیت حاصل کی تھی۔ وہ تلوار بازی، گھڑ سواری اور تیر اندازی میں اپنی غیر معمولی مہارتوں کے لیے جانے جاتے تھے جس کی وجہ سے انہیں سیف اللہ یا خدا کی تلوار کا خطاب ملا۔

اپنے ابتدائی دنوں میں، خالد بن الولید اسلام کے سخت مخالف تھے اور مسلمانوں کے خلاف کئی جنگیں بھی لڑی تھیں۔ وہ خاص طور پر احد کی جنگ میں اپنے کردار کے لیے جانا جاتے تھے، جہاں انہوں نے گھڑسوار فوج کی قیادت کی جس نے مسلمانوں کو بہت جانی نقصان پہنچایا۔ تاہم، مسلمان جنگجوؤں کی بہادری اور عزم کو دیکھنے کے بعد، خالد بن الولید کے دل میں تبدیلی آنے لگی۔

روایت کے مطابق، خالد بن الولید قرآن کی تعلیمات سے بہت متاثر ہوئے تھے جسے انہوں نے ایک مسلمان قیدی سے سنا تھا۔ وہ خاص طور پر توحید پرست خدا کے عقیدے اور نیک زندگی کی دعوت سے متاثر ہوئے تھے۔ انہوں  نے بالآخر 629 عیسوی میں  رسالت مآب ﷺ کی وفات سے چند سال قبل اسلام قبول کیا۔

میدان جنگ میں کارنامے

اسلام قبول کرنے کے بعد، خالد بن الولید مسلمانوں کے سب سے اہم جرنیلوں میں سے ایک بن گئے تھے جنہوں نے بازنطینی اور ساسانی سلطنتوں کے خلاف کئی کامیاب جنگوں کی قیادت کی۔ وہ اپنی حکمت عملی کی مہارت اور میدان جنگ میں اپنے مخالفین کے حوصلے پسپا کرنے کی صلاحیت کے لیے جانے جاتے تھے۔

ان کی سب سے مشہور فتوحات میں سے ایک 629 عیسوی میں موتہ کی جنگ تھی جہاں انہوں نے ایک بہت بڑی بازنطینی فوج کے خلاف ایک چھوٹی مسلمان فوج کی قیادت کی تھی۔ بہت زیادہ تعداد میں ہونے کے باوجود، خالد بن الولید نے دشمنوں کے لشکر کو کافی نقصان پہنچانے اور اپنی افواج کو بحفاظت واپس لانے میں کامیاب رہے۔

آخری ایام اور وفات

632 عیسوی میں رسالت مآب ﷺ کی وفات کے بعد، خالد بن الولید نے پہلے خلیفہ ابوبکر اور عمر کی قیادت میں مسلم فوج میں جنرل کے طور پر خدمات انجام دیں۔ انہوں نے عراق کی فتح میں اہم کردار ادا کیا، جہاں انہوں نے ساسانی سلطنت کے خلاف کئی کامیاب جنگوں کی قیادت کی۔ 634 عیسوی میں، انہیں حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) نے شام میں مسلمان کے فوجی کمانڈر کی حیثیت سے برطرف کر دیا۔ لیکن اپنی برطرفی کے باوجود، خالد بن الولید نے مسلم فوجی مہمات میں اپنا کردار ادا کرنا جاری رکھا، دوسرے جرنیلوں کے ماتحت  اسلام کی سربلندی کے لئے خدمات سرانجام دیں اور بازنطینی سلطنت کے خلاف لڑائیوں میں حصہ لیا۔

اس اثناء میں ان کی صحت خراب ہونے لگی اور وہ بالآخر بیمار پڑ گئے اور 642 عیسوی میں، 50 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ان کی موت پر اہل ایمان والوں میں غم کی لہر چھاگئی جو انہیں اسلام کا ہیرو اور دنیا کے عظیم ترین جرنیلوں میں سے ایک سمجھتے تھے۔

حضرت خالد بن ولید دنیا کے واحد سپہ سالار ہیں جنہوں نے کسی جنگ میں شکست نہیں کھائی۔ وہ جس جنگ میں شریک ہوئے فتح و نصرت نے ان کے قدم چومے۔ ان کی ذہانت اور شجاعت کے اپنے اور غیر بھی اعتراف کرتے ہیں۔

یورپ کے بعض مؤرخین خالد بن ولید کے کارناموں کو دھندلانے کے لیے یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ دس دور میں خالد بن ولید نے فتوحات حاصل کیں اس وقت رومی ریاستیں اور صوبے اپنی خانہ جنگی میں مبتلا تھے اس لئے خالد بن ولید کو ہر مقام پر کامیابی حاصل ہوئی۔

لیکن یہ محض بھونڈا سا بہانہ ہے۔ تمام بڑی بڑی جنگوں میں خالد بن ولید کا لشکر رومی لشکروں کے ایک چوتھائی سے بھی کم رہا ہے۔ اس کے باوجود خالد بن ولید نے اپنی جنگی حکمتِ عملی سے رومیوں پر ہمیشہ کامیابی حاصل کی۔

You May Also Like