ایک دیہاتی کا خواب
- November 3, 2024
- 40
ایک دیہاتی، جس نے اپنی ساری زندگی کھیتوں اور محنت مزدوری میں گزار دی تھی، اپنے خوابوں کا بوجھ اٹھائے اپنے بیٹے کے ساتھ کراچی کے ایک مشہور انگلش میڈیم اسکول پہنچا۔ اس کی آنکھوں میں امید کی چمک تھی کہ اس کا بیٹا اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے ایک کامیاب انسان بنے گا اور ان کی زندگی بدل دے گا۔
اسکول کے پرنسپل نے لڑکے کا انٹرویو لیا اور پھر ایک سرد لہجے میں کہا، "آپ کا بیٹا ہمارے اسکول میں پڑھنے کے قابل نہیں ہے۔ اسے اپنے گاؤں لے جائیں اور بھینسوں کا باڑا صاف کروائیں۔ یہاں صرف پڑھے لکھے والدین کے بچے ہی داخلہ لے سکتے ہیں۔"
یہ سن کر لڑکے کے باپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ وہ بے بسی سے پرنسپل کے سامنے کھڑا تھا، جب کہ لڑکا، جو پاس کھڑا یہ سب کچھ سن رہا تھا، آگے بڑھا اور پرنسپل سے مضبوط لہجے میں کہا، "آپ ٹھیک کہتے ہیں، مگر یاد رکھیے، آج سے دس سال بعد آپ مجھ سے ملنے کو ترس جائیں گے۔"
یہ سن کر پرنسپل نے ہنس کر لڑکے کو دیکھا، لیکن باپ کا دل ٹوٹ چکا تھا۔ اس نے بیٹے کا ہاتھ پکڑا اور اسے واپس گاؤں لے جانے لگا۔ راستے بھر وہ روتا رہا، اور اس کی بے بسی اس کی خاموشی سے عیاں تھی۔ جب وہ گھر پہنچے، تو ماں نے بیٹے کو دیکھ کر آنسو بہانا شروع کر دیا، اور پورا گھر مایوسی کی لپیٹ میں آ گیا۔
اس رات لڑکا سو نہ سکا۔ وہ اپنے والدین کے آنسو یاد کر رہا تھا اور سوچتا رہا کہ کس طرح وہ محنت کرکے اپنے والدین کا سر فخر سے بلند کر سکتا ہے۔ اس نے اپنے دل میں عزم کر لیا کہ وہ اپنی تعلیم کو اپنی زندگی کا مقصد بنائے گا۔ اگلی صبح، اس نے کتابیں اٹھائیں اور دل لگا کر پڑھائی شروع کر دی۔
لڑکے نے دن رات ایک کر دیا۔ اس کی محنت اتنی انتھک تھی کہ وہ اپنی زندگی کے ہر شوق کو چھوڑ چکا تھا۔ نہ کوئی دوست باقی رہا، نہ ہی اس کے پاس وقت تھا کہ وہ رشتہ داروں سے مل سکے۔ لوگ اسے پاگل کہنے لگے، لیکن اس نے کسی کی پرواہ نہ کی۔ وہ ہر روز اپنے خواب کو حقیقت بنانے کی جنگ لڑ رہا تھا۔
جب امتحانات کا وقت آیا، تو اس نے بھرپور تیاری کے ساتھ امتحان دیا۔ رزلٹ والے دن اس کے والدین سخت پریشان تھے۔ ان کے دل دھڑک رہے تھے کہ شاید ان کا بیٹا کامیاب نہ ہو سکے۔ مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ خبر آئی کہ اس نے میٹرک کے امتحان میں پورے ضلع میں ٹاپ کیا ہے۔
یہ سن کر گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ دیہاتی ماں باپ نے آنکھوں میں خوشی کے آنسو لیے بیٹے کو گلے لگا لیا۔ ان کے خواب حقیقت میں ڈھل چکے تھے۔ لڑکا چمکدار کارکردگی کی بدولت ایک ایوارڈ تقریب میں مدعو ہوا، جہاں سائنس کے میدان میں اسے اعلیٰ ایوارڈ سے نوازا گیا۔
تقریب میں جب وہ اپنی محنت کے ثمرات سمیٹنے کے لیے بیٹھا تھا، تو ایک شخص چلتا ہوا اس کی طرف آیا۔ اس شخص نے آگے بڑھ کر مبارک باد دی۔ وہ شخص کوئی اور نہیں، بلکہ وہی پرنسپل تھا، جو کبھی اسے نااہل کہہ کر اسکول سے واپس بھیج چکا تھا۔ پرنسپل کی آنکھوں میں شرمندگی تھی، اور وہ اپنی کہی ہوئی باتوں پر نادم تھے۔
لڑکے نے پرنسپل کی طرف دیکھا، مسکرایا اور کہا، "پریشان نہ ہوں، سر۔ اگر اس دن آپ نے ہمیں اسکول میں رکھ لیا ہوتا، تو شاید آج میں یہ ایوارڈ نہ جیت پاتا۔ آپ کی سختی نے مجھے اور بھی مضبوط بنا دیا۔ اس کے لیے میں آپ کا شکر گزار ہوں۔"
پرنسپل نے حیرت سے اس لڑکے کو دیکھا، جس نے ان کی باتوں کو اپنی کمزوری نہیں، بلکہ طاقت بنا لیا تھا۔ اس لمحے میں، سب نے اس دیہاتی لڑکے کی محنت، عزم اور قربانی کی داستان کو سنا اور سراہا۔ وہ لڑکا اپنی محنت کے بل بوتے پر کامیابی کی ایک جیتی جاگتی مثال بن چکا تھا، اور اس کے والدین کا سر فخر سے بلند ہو گیا تھا۔