متبادل کرنسیوں کا عروج اور روایتی مالیاتی نظام پر ان کے ممکنہ اثرات
- June 4, 2023
- 316
متبادل کرنسیوں کی اہمیت اور اثرات کو سمجھنے کیلئے ہمیں روایتی مالی نظام کی نقل میں دیکھنا ہوگا۔ روایتی مالی نظام اعتباری اداروں، بینکوں اور حکومتوں پر مبنی ہوتا ہے جو سمجھتے ہیں کہ کسی ایک سند یا حکمتِ عملی کو ماننے کے بعد ہم بینکوں کے معاملات میں شامل ہوتے ہیں۔ انہیں حکمتِ عملی کے تحت رقم کی لین دین اور قرضہ حاصل کیے جاتے ہیں۔
ماضی میں کرنسی مختلف دھاتوں کی بنی ہوتی تھی اور اب بھی چھوٹی مالیت کے سِکّے دھاتوں سے ہی بنائے جاتے ہیں۔ ٹیلی گرافک ٹرانسفر کی ایجاد کے بعد دھاتی کرنسی آہستہ آہستہ کاغذی کرنسی میں تبدیل ہو گئی جبکہ کمپیوٹر کی ایجاد کے بعد کاغذی کرنسی بتدریج ڈیجیٹل کرنسی میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔
ساڑھے تین سال کی مدت میں 5600 میل کا سفر طے کر کے جب مئی، 1275ء میں مارکو پولو پہلی دفعہ چین پہنچا تو چار چیزیں دیکھ کر بہت حیران ہوا۔ یہ چیزیں تھیں: جلنے والا پتھر( کوئلہ)، نہ جلنے والے کپڑے کا دسترخوان (ایسبسٹوس) ،کاغذی کرنسی اور شاہی ڈاک کا نظام۔مارکو پولو لکھتا ہے "آپ کہہ سکتے ہیں کہ قبلائی خان کو کیمیا گری ( یعنی سونا بنانے کے فن ) میں مہارت حاصل تھی۔ بغیر کسی خرچ کے خان ہر سال یہ دولت اتنی بڑی مقدار میں بنا لیتا تھا جو دنیا کے سارے خزانوں کے برابر ہوتی تھی"۔ لیکن چین سے بھی پہلے کاغذی کرنسی جاپان میں استعمال ہوئی۔ جاپان میں یہ کاغذی کرنسی کسی بینک یا بادشاہ نے نہیں بلکہ پگوڈا نے جاری کیے تھے۔
کاغذی کرنسی سینٹرل بینک جاری کرتا ہے۔ مارکوپولو وہ پہلا آدمی تھا جس نے چین میں سینٹرل بینکنگ سیکھی اور وینس واپس آ کریورپ والوں کو سیکھائی۔ اس طرح یورپ میں سینٹرل بینکنگ کا آغاز ہوا جو رفتہ رفتہ پوری دنیا میں پھیل گیا۔
کہا جاتا ہے کہ کاغذی کرنسی موجودہ دنیا کا سب سے بڑا دھوکا ہے۔
کرنسی تخلیق کرنا اور عوام کو اس کے استعمال پر مجبور کرنا حکومت یا مرکزی بینک کو بہت بڑی طاقت عطا کرتا ہے۔
جولائی، 2006ء کے ایک جریدہ وسہل بلور کے ایک مضمون کا عنوان ہے کہ ڈالر جاری کرنے والا امریکی سینٹرل بینک "فیڈرل ریزرو اس صدی کا سب سے بڑا دھوکا ہے"۔ مشہور برطانوی ماہر معاشیات جان مینارڈ کینز نے کہا تھا کہ مسلسل نوٹ چھاپ کر حکومت نہایت خاموشی اور رازداری سے اپنے عوام کی دولت کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کر لیتی ہے۔ یہ طریقہ اکثریت کو غریب بنا دیتا ہے مگر چند لوگ امیر ہو جاتے ہیں۔[1927ء میں بینک آف انگلینڈ کے گورنر جوسیہ سٹیمپ ( جو انگلستان کا دوسرا امیر ترین فرد تھا ) نے کہا تھا کہ"جدید بینکاری نظام بغیر کسی خرچ کے رقم (کرنسی) بناتا ہے۔ یہ غالباً آج تک بنائی گئی سب سے بڑی شعبدہ بازی ہے۔ بینک مالکان پوری دنیا کے مالک ہیں۔ اگر یہ دنیا ان سے چھن بھی جائے لیکن ان کے پاس کرنسی بنانے کا اختیار باقی رہے تو وہ ایک جنبش قلم سے اتنی کرنسی بنا لیں گے کہ دوبارہ دنیا خرید لیں۔.. اگر تم چاہتے ہو کہ بینک مالکان کی غلامی کرتے رہو اور اپنی غلامی کی قیمت بھی ادا کرتے رہو تو بینک مالکان کو کرنسی بنانے دو اور قرضے کنٹرول کرنے دو۔بنجمن ڈی اسرائیلی نے کہا تھا کہ یہ بڑی اچھی بات ہے کہ ملک کے عوام بینکاری اور مالیاتی نظام کے بارے میں کچھ نہیں جانتے کیونکہ اگر وہ یہ سب کچھ جانتے تو مجھے یقین ہے کہ کل صبح سے پہلے بغاوت ہو جاتی۔روتھسچائلڈ نے 1838 میں کہا تھا کہ مجھے کسی ملک کی کرنسی کنٹرول کرنے دو۔ پھر مجھے پروا نہیں کہ قانون کون بناتا ہے۔
ایک کریپٹو کرنسی ایکسچینج ، یا ڈیجیٹل کرنسی ایکسچینج ( DCE )، ایک ایسا کاروباری مرکز ہوتا ہے جو صارفین کو کرپٹو کرنسی یا ڈیجیٹل کرنسیوں کو دوسرے اثاثوں کے لیے تجارت کرنے کی سہولت دیتا ہے، جیسے روایتی فیاٹ منی یا دیگر ڈیجیٹل کرنسیاں۔ یہ ایکسچینج کریڈٹ کارڈ سے، وائر ٹرانسفر یا رقم ادائیگی کی دیگر اقسام کو قبول کرتے ہوئے ڈیجیٹل کرنسیوں یا کریپٹو کرنسیاں فراہم کر سکتے ہیں۔ ایک کریپٹو کرنسی ایکسچینج ایک مارکیٹ میکر ہو سکتا ہے جو عام طور پر بولی لگاتا ہے – اسپریڈ کو بطور ٹرانزیکشن کمیشن سروس کے لیے یا، ایک پلیٹ فارم کے طور پر صرف فیس لیتا ہے۔
کچھ بروکریجز جو کرپٹو کرنسی کے متبادل پر بھی کام کرتے ہیں، جیسے Robinhood اور eToro ، صارفین کو کریپٹو کرنسی والیٹس میں کرپٹو کرنسیوں کو خریدنے کی اجازت دیتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے وہ اسے واپس نہیں لیتے۔ تاہم، وقف شدہ کریپٹو کرنسی ایکسچینجز جیسے بائننس اور کوائن بیس کرپٹو کرنسی کی واپسی کی سہولت دیتے ہیں۔
آلٹرنٹو کرنسیز وہ واحد وسیلہ ہیں جو چلتے معاشی منصوبوں کو کامیابی کے ساتھ جوڑتے ہیں، ۔ یہ کرنسیز عموماً ٹکنالوجی بیس ہوتی ہیں جن کی بنا پر ہمیں کسی ایک سرٹیفیکٹ یا حکمتِ عملی کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ معاملہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔
ایک اہم مثال بٹ کوائن ہے جو پہلی کرنسی ہے جس کی بنیاد ٹکنالوجی بلاکچین پر ہے۔ بٹ کوائن کو ایک مستقل قیمت نہیں ہوتی ہے بلکہ اس کی قیمت عرض و پیش کے قوانین کے تحت تبدیل ہوتی ہے۔ یہ آزادانہ طور پر قابل مبادلہ ہے، بیٹن کے بیٹن ایک دوسرے کو منتقل کر سکتے ہیں بغیر کسی کی ضرورت کے۔ یہ معاشی سسٹم کیلئے کم لاگت والی اور فوری ترکیب بناتی ہے جس سے بہت سی خرید و فروخت کے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔